اس قوم کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے؟

کسی بھی معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری عدم برداشت ہوتی ہے. جو معاشرہ برداشت کی قوت کھو دیتا ہے اس میں ترقی اور بہتری کی گنجائش نہیں رہتی. برداشت ایک ایسی قوت ہے جو معاشرے کو جوڑ کر رکھتی ہے اور اس کی مکمل غیر حاضری میں افراتفری کی صورت حال پیش آتی ہے. حال ہی میں ہم سب نے عدم برداشت کا نتیجہ دیکھا جہاں عام شہریوں کو لوٹا گیا اور پورے ملک کو پامال کر کے رکھ دیا گیا.
یہ قوم بہت عظیم ہے اور اس کے اندر کا ہنر کسی ہیرے سے کم نہیں مگر عدم برداشت اس کو تانبے کے برابر بنا دیتی ہے. کسی بھی شخصیت کا سب سے خوبصورت پہلو اس کا اپنے مخالفین کے ساتھ رویے ہے کہ کیسے وہ اپنے مخالفین کی تلخ باتیں اور تنقید کو برداشت کرتا ہے. یہ بات اگر پاکستانی قوم سمجھ جائے تو بہت سارے مسائل کا حل نکل سکتا ہے.
اس کی سب سے عام مثال ٹریفک ہے. ہر کوئی جلدی میں ہوتا ہے کسی کو گھر پہنچنے کی جلدی، کسی کو کام پر پہنچنے کی جلدی، کسی کو بلاوجہ ہی جلدی ہے. یہ جلدی اصل میں بے صبری ہے اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا نتیجہ ہے. کیوں کوئی گاڑی میری گاڑی سے آگے نکلے یا کیوں میں ٹریفک کے سگنل پر کھڑا رہوں یا کیوں زیبراکراسنگ پر لائن سے پیچھے کھڑا رہوں، یہ سب اس قوم کی بے صبری کی عکاسی کرتی ہے اور حال ہی میں حکومت نے جو ٹریفک کے قوانین میں سختی کی ہے اس کا بہت کھلے دل سے شکر ادا کرتی ہوں کیونکہ چالان اور مالی نقصان کے ڈر سے ہی سہی اس قوم میں کچھ صبر تو پیدا ہوگا. کئی لوگوں نے ان قوانین میں سختی کی مخالفت کی اور اس پر تنقید بھی کی کیونکہ درحقیقت ہم چاہتے ہی نہیں کہ ہم پر کوئی قانون مسلط ہو یا کوئی ہمیں روکے ٹوکے. جن ممالک نے سب نے زیادہ ترقی حاصل کی ہے ان کی سب سے بڑی خصوصیت برداشت ہے.
معاشرے میں عدم برداشت بہت سے پہلوؤں میں واضح ہوتی ہے جیسے کہ مذہبی, فرقوں, رنگ, ذات وغیرہ. میں نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کے پچھلے دور میں معاشرے میں اب سے زیادہ یکجہتی ہوتی تھی. جیسے کہ سارے فرقے ایک ساتھ زندگی تو بسر کرتے ہیں تھے مگر ایک دوسرے کا بہت احترام بھی کرتے تھے. اگر آج کے دور میں نظر ڈالی جائے تو کوئی کسی کے عقیدے کو برداشت نہیں کرتا اور نہ ہی اس کی عزت کرتا ہے. سوشل میڈیا پر بدزبانی سے بھری پوسٹیں لگانا اور گالی گلوچ کرنا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کے اب کسی کے عقیدے کا بھی احترام کرنا آج کل کی پرورش میں شامل نہیں ہے. پچھلے دور کی تعریف اصل میں ان والدین کی تعریف ہے جنکی پرورش کے نتیجے میں ُان لوگوں میں برداشت کی قوت پیدا ہوئی. دورِ حاضر میں والدین میں خود ہی برداشت کی کمی ہے جو کہ وہ اپنی اولاد میں بھی منتقل کر دیتے ہیں. چھوٹے چھوٹے بچوں کو نفرت کے بول سکھائے جاتے ہیں. بچپن ہی سے گھر میں نفرت دیکھ کر یہ بچے بھی عدم برداشت کا شکار ہو جاتے ہیں اور اسی طرح معاشرے میں عدم برداشت مزید بڑھتی جاتی ہے. پہلے کے لوگ مجالس میں بھی جاتے تھے، نذرونیاز بھی کھاتے تھے، مختلف مذاہب کے لوگ مل کر رہتے بھی تھے اور ان کی آپس میں رفاقتیں بھی تھی. تو اب کیوں نہیں؟ کیوں ہم مل جل کر نہیں رہ سکتے؟ کیوں ہمیں دوسرے کی عزت نہیں کرسکتے؟ انتہاپسندی کی وجہ سے ہم سب میں اس حد تک عدم برداشت پیدا ہو گئی ہے کہ اب گزارہ کرنا مشکل ہو گیا ہے.
کیا سب انبیاء اور ائمہ نے صبر کی تلقین نہیں کی؟
صبر کیجئے! ضروری نہیں کہ ہم سب کے سب خیال ایک جیسے ہوں. ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سوچ خود تعمیر کرے اور ہر معاشرے کو چاہیے کہ وہ اس سوچ کی عزت کریں. کامیاب معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں پر سب لوگ غیر متفق ہونے پر ہی متفق ہو جائیں. بے صبر ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ یہ آپ سے آپ کا ذہنی سکون ہی لے گا. حوصلہ رکھیں جو چیز ہونی ہے وہ ہو کر ہی رہے گی اور آپ کی تیزی یا بے صبری سے پہلے یا بعد میں نہیں ہوگی. اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کیجئے! جب سب مکتبہ فکر کے لوگ مل کر ایک ساتھ چلیں گے تب ہی یہ ملک ترقی کر سکے گا. سب لوگوں کی عزت کریں تاکہ معاشرے میں سکون قائم کیا جاسکے. 

Comments

Popular posts from this blog

4th April, 2011

Moving on!

Christmas season and Saint Peter's High School.