ایک عام شہری کی کیا غلطی تھی؟
دو دن عوام کو یرغمال بنانے والے یہ لوگ کون ہیں؟ کیا یہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟ میری کنج عقل کے مطابق تو یہ لوگ صرف اور صرف اشتعال پسندی اور دہشت گردی کی عکاسی کرتے ہیں۔ عام شہریوں کو لوٹنا اور ہراساں کرنا کہاں کا احتجاج ہے؟
بے شک احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے مگر احتجاج کرنے کا بھی ایک صحیح طریقہ ہوتا ہے۔ اگر احتجاج کرنے کا اصل مقصد صرف اور صرف ملک کا پہیہ جام کرنا ہے تو اس طرح کے احتجاج کا اصل مقصد سمجھنا بہت مشکل ہے۔ پچھلے ہفتے عوام کو دو دن تک اپنے گھروں میں محصور کر دیا گیا اور باہری دنیا سے کسی بھی طرح کے رابطے کو بھی منقطع کر دیا گیا۔ ٹیلی ویژن کے علاوہ باہر کے حالات جاننے کا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ میں لاہور کے جس کے علاقے میں مقیم ہوں وہاں ان احتجاجوں کے شدت کچھ زیادہ تھی اس لئے موبائل سگنل اور انٹرنیٹ سروسز دو دن مکمل طور پر بند رہیں۔ پورے ملک میں کئی تاجروں کا اربوں روپے کا نقصان ہوا اور کی لوگ اپنے مقامات میں محصور ہو کر رہ گئے۔ میری ایک سہیلی مری گئی ہوئی تھی اور واپسی پر اسلام آبادآباد میں اکر ان دھرنوں کی وجہ سے پھنس گئی۔ اسی طرح کی لوگوں کی گاڑیاں احتجاج کے نام پر تباہ کر دی گئی. ان واہےواقعات کی بہت سی ویڈیوز بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں جہاں موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو آگ لگائی جا رہی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ان مکروہ اعمال کے ساتھ لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پکارا جا رہا ہے۔ باحثیت مسلم یہ ایک نہایت ہی شرمناک عمل ہے کی جان اور مال کو نقصان پہنچانا اور وہ بھی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر، یہ نہایت ہی غلط ہے۔
آسیہ بی بی ایک عیسائی خاتون ہیں جس پر توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا الزام لگا تھا۔ یہ قصہ آٹھ سالل پرانا ہے اور ہائیکورٹ نےاسے سزائے موت کا حکم سنایا تھا مگر حال ہی میں سپریم کورٹ نے اس کو بری کردیا۔ اس فیصلے کے ردعمل میں ملک بھر میں بہت سے مظاہرے پھوٹ اٹھے اور ان میں سب سے بڑا مظاہرہ تحریک لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علامہ خادم رضوی کی صدارت میں کیا۔ زیادہ تر تو یہ مظاہرے پرتشدد تھے، بچے سے کیلے
یہ تو کئی واقعات میں سے ایک واقعہ ہے جو کیمرے کی آنکھ نے قید کر لیا، نہ جانے کتنی ہی لوگوں کا روزگار لوٹا گیا ہے اور کتنی ہی لوگ اس زیادتی کے شکار ہوئے ہیں۔ جن لوگوں کی دکانیں احتجاج کے نام پر بند کرا دی گئی، ان کا کیا قصور تھا؟ کیا وہ بھی کسی گستاخی کے مرتکب تھے؟ جتنے دن یہ دکانیں بند رہیں ان کا کتنے روپوں کا نقصان ہوا ہوگا، کون بھرے گا وہ نقصان؟ کیا علامہ خادم رضوی صاحب ان لوگوں کے کر کاروبار میں ہونے والے نقصان کی بھرپائی کریں گے؟
یہاں سوال صحیح یا غلط کا نہیں اور نہ ہی میں کوئی ماہر قانون ہوں جو اس بات پر تبصرہ کر سکوں، بات یہ ہے کہ اپنے اداروں کو گالیاں دینا اور ان پر موت کے فتوے لگانا کہاں کا انصاف ہے؟ جو ملک اپنے اداروں کی عزت نہیں کرتا اس کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے۔ ہر شہری کے پاس قانونی رستہ موجود ہے کہ وہ اپنے حق کا استعمال کرے اور انصاف کے لیے لڑائی کرے مگر سڑکوں پر ہلہ گلہ کرنا اور پرتشدد احتجاج کرنا کسی چیز کا حل نہیں ہے۔
کاروباری نقصان تو ایک طرف جو ہم عام شہریوں کو نفسیاتی ایذا پہنچا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان عناصر کا کوئی مستقل حل نکالیں جو جب چاہتے ہیں عوام کو محصور کردیتےہہں اور ملک کا پہیہ جام کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو قانونی انداز سے سبق سکھانا چاہیے تاکہ آگے سے یہ کسی بھی وقت اٹھ کر ملک کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کسی بھی مسلمان کے ایمان کا بنیادی جز ہے۔ کوئی بھی مسلمان ان کی حرمت کی پامالی برداشت نہیں کرے گا مگر ہمارا دین ہمیں امن، برداشت اور صبر کی تلقین بھی کرتا ہے۔ ہر کسی کو حق ہے کہ وہ اپنے جذبات بیان کرے اور ریکارڈ بھی کروائے مگر انصاف حاصل کرنے کا صحیح طریقہ عدالت اور قانون کا ہے۔ آج تک کوئی بھی فیصلہ سڑکوں پر نہیں ہوا۔ اس طرح توڑپھوڑکرنے سے انصاف حاصل نہیں ہوتا اگر کچھ ہوتا ہے تو صرف اور صرف عام عوام کا نقصان۔ کسی بھی ملک کا قاضی اس ملک کا سب سے ذمہ دار شخص ہوتا ہے اور اس پر اعتماد نہایت ہی ضروری ہے۔ اگر آپ حق پر ہو تو آپ کو اس بات کا خوف نہیں ہونا چاہیے کہ اس سچ کبھی سامنے نہیں آئے گا کیونکہ چاہے حالات جو بھی ہو ْ سامنے آ کر ہی رہتا ہے۔ْ
سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنے کے لئے عدالت موجود ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوا کیا وکیل بھی خود اور قاضی بھی خود؟ جو لوگ عام عوام کا نقصان کرنے کے مرتکب ہیں ان کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے اور دھرنا قائدین کو چاہیے کہ عام عوام سے معافی مانگیں کہ ان کے دھرنے کی وجہ سے جو مشکلات عوام کو پیش آئی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ دیکھی ہی
ہوگی
Video Credit: Viral Videos World (https://www.youtube.com/channel/UCaO9UVLf0qZCWDwZ3VgNNOg)
Image Courtesy haqbaattv.com |
آسیہ بی بی ایک عیسائی خاتون ہیں جس پر توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا الزام لگا تھا۔ یہ قصہ آٹھ سالل پرانا ہے اور ہائیکورٹ نےاسے سزائے موت کا حکم سنایا تھا مگر حال ہی میں سپریم کورٹ نے اس کو بری کردیا۔ اس فیصلے کے ردعمل میں ملک بھر میں بہت سے مظاہرے پھوٹ اٹھے اور ان میں سب سے بڑا مظاہرہ تحریک لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علامہ خادم رضوی کی صدارت میں کیا۔ زیادہ تر تو یہ مظاہرے پرتشدد تھے، بچے سے کیلے
یہ تو کئی واقعات میں سے ایک واقعہ ہے جو کیمرے کی آنکھ نے قید کر لیا، نہ جانے کتنی ہی لوگوں کا روزگار لوٹا گیا ہے اور کتنی ہی لوگ اس زیادتی کے شکار ہوئے ہیں۔ جن لوگوں کی دکانیں احتجاج کے نام پر بند کرا دی گئی، ان کا کیا قصور تھا؟ کیا وہ بھی کسی گستاخی کے مرتکب تھے؟ جتنے دن یہ دکانیں بند رہیں ان کا کتنے روپوں کا نقصان ہوا ہوگا، کون بھرے گا وہ نقصان؟ کیا علامہ خادم رضوی صاحب ان لوگوں کے کر کاروبار میں ہونے والے نقصان کی بھرپائی کریں گے؟
یہاں سوال صحیح یا غلط کا نہیں اور نہ ہی میں کوئی ماہر قانون ہوں جو اس بات پر تبصرہ کر سکوں، بات یہ ہے کہ اپنے اداروں کو گالیاں دینا اور ان پر موت کے فتوے لگانا کہاں کا انصاف ہے؟ جو ملک اپنے اداروں کی عزت نہیں کرتا اس کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے۔ ہر شہری کے پاس قانونی رستہ موجود ہے کہ وہ اپنے حق کا استعمال کرے اور انصاف کے لیے لڑائی کرے مگر سڑکوں پر ہلہ گلہ کرنا اور پرتشدد احتجاج کرنا کسی چیز کا حل نہیں ہے۔
کاروباری نقصان تو ایک طرف جو ہم عام شہریوں کو نفسیاتی ایذا پہنچا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان عناصر کا کوئی مستقل حل نکالیں جو جب چاہتے ہیں عوام کو محصور کردیتےہہں اور ملک کا پہیہ جام کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو قانونی انداز سے سبق سکھانا چاہیے تاکہ آگے سے یہ کسی بھی وقت اٹھ کر ملک کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کسی بھی مسلمان کے ایمان کا بنیادی جز ہے۔ کوئی بھی مسلمان ان کی حرمت کی پامالی برداشت نہیں کرے گا مگر ہمارا دین ہمیں امن، برداشت اور صبر کی تلقین بھی کرتا ہے۔ ہر کسی کو حق ہے کہ وہ اپنے جذبات بیان کرے اور ریکارڈ بھی کروائے مگر انصاف حاصل کرنے کا صحیح طریقہ عدالت اور قانون کا ہے۔ آج تک کوئی بھی فیصلہ سڑکوں پر نہیں ہوا۔ اس طرح توڑپھوڑکرنے سے انصاف حاصل نہیں ہوتا اگر کچھ ہوتا ہے تو صرف اور صرف عام عوام کا نقصان۔ کسی بھی ملک کا قاضی اس ملک کا سب سے ذمہ دار شخص ہوتا ہے اور اس پر اعتماد نہایت ہی ضروری ہے۔ اگر آپ حق پر ہو تو آپ کو اس بات کا خوف نہیں ہونا چاہیے کہ اس سچ کبھی سامنے نہیں آئے گا کیونکہ چاہے حالات جو بھی ہو ْ سامنے آ کر ہی رہتا ہے۔ْ
ہوگی
Video Credit: Viral Videos World (https://www.youtube.com/channel/UCaO9UVLf0qZCWDwZ3VgNNOg)
Bilkul ghalat bayani ki apko hakaik ka pata he nahe tha ..Koi nahe kehta apne karkun ko k toor phoor karay .Baba G ka bayan dekha do jis me unho ne kaha ho k toor phoor karo ..bhai haqiqat ko samjho jub banda jamat banata hai to kai dushman ban jatay hai yeh hn ki sazish the k is tarha kar k in ki image kharab ki jaay aur in k dharnay k asal maqsad say logo ki tawajah hatai jaay
ReplyDelete